Artisans of misguidance
گمراہی کے کاریگر
تحریر: ڈاکٹر لیلی حمدان۔
اردو ترجمہ: مائزہ خان ۔
اسلامی حلقوں میں برپا ہونے والی اخلاقی گراوٹ، سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئی ناپختہ بحثیں، اور ان مباحثوں میں اسلامی آدابِ اختلاف کا فقدان اب کسی صاحبِ بصیرت سے مخفی نہیں۔ یہ ساری صورت حال ایک باطنی بت کی نشان دہی کرتی ہے: طاغوتِ ہوا اور فرقہ واریت۔
یہ وہ قوم ہے جو اپنے نظریے کو، خواہ وہ کتنا ہی باطل کیوں نہ ہو، دین کی مانند تقدیس بخشتی ہے، اور اپنے رہنما کو ایسے بلند مقام پر رکھتی ہے کہ ہر عدل و انصاف اس کے قدموں میں قربان کر دیا جاتا ہے۔ یہاں خواہشات کو شریعت بنایا جاتا ہے، اور جو ان کی فکر سے اختلاف کرے حتی کہ دلیل سے، اُسے ظالموں کے ایک ہجوم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے سینوں میں چھپے فرعون چھوٹے سے اختلاف پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ اختلاف مودب، مہذب انداز میں کیا جائے، حتیٰ کہ اگر اختلاف کرنے والا وہی شخص ہو جو مدتوں سے اُن پر احسان کرتا آیا ہو، تب بھی اس کی شخصیت کو مٹی میں ملا دیا جاتا ہے۔ بدگوئی، بد زبانی، اخلاقی پستی اور کردار کشی کی حد تک فجر و فجور پر اتر آتے ہیں، خصوصاً عورتیں، جو نہ شرم کا پاس رکھتی ہیں اور نہ ادب کا۔
اسلامی اختلاف کی روح۔
اگر اختلاف کرنے والے اسلام کے آداب کو اپناتے تو آج کی یہ فتنہ انگیزی کم ہو جاتی۔ اختلاف کے بجائے عمل کے میدان روشن ہوتے۔ باادب، باخدا مرد و خواتین کا ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا، جو اپنی بلندیوں سے دنیا کو منور کرتا۔
لیکن ایمان والا نہ فاجر ہوتا ہے، نہ فحش گو، نہ کذاب، نہ خیانت کار، نہ بد دیانت، نہ حدود پھلانگنے والا! اسے اللہ کا خوف اور اس کی رحمت کی امید روک لیتی ہے۔
فرمانِ الٰہی۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ.
بنیادی مسئلہ: فہم کی کمزوری اور نفس کی پیروی
یہ اخلاقی زوال صرف اخلاقی نہیں بلکہ فکری بھی ہے۔ اکثر لوگ فہمِ دین میں کمزور ہیں، نیتیں سطحی، فہم عجلت آمیز اور آراء خواہشات کے تابع ہیں۔ اختلاف کا مطلب ان کے نزدیک دشمنی ہے، حتیٰ کہ اپنے سے بہتر پر بھی جھوٹ باندھنا، انکارِ فضل کرنا اور خباثت کے ساتھ مخالفت کرنا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔
وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ.. سورہ ص: ۲۱-۲۴
یہ آیات آج کی مسلمان جماعتوں، کارکنوں اور داعیان کے رویے کا مکمل عکس پیش کرتی ہیں۔
اصل اسباب و وجوہات
نصب العین کی تبدیلی
فرد یا جماعت مرکزِ حق بن گئی ہے، شریعت نہیں۔ ہر تنقید کو ذاتی حملہ سمجھا جاتا ہے۔
مشایخ کا عوامی دباؤ کے آگے جھکنا
خطابات اور بیانات میں عوام کی پسند کو معیار بنانا، سچائی سے گریز، اور مداہنت عام ہو چکی ہے۔
میڈیا کی جذباتی فریب کاری
ریٹنگ اور لائکس کی دوڑ میں عوام کے جذبات سے کھیل کر اصل مسائل کو چھپایا جاتا ہے۔
ذہنی غلامی
ایسے ذہن جو ہمیشہ کسی "ہیرو" کے تابع رہنے کے عادی ہیں، اور اپنی عقل کو گروی رکھ چکے ہیں۔
ناصحین کی کمی
جو حکمت و شجاعت سے حق کی دعوت دے سکیں، بغیر مداہنت کے۔
فقہِ دین سے جہالت
اصولِ شریعت، عقیدہ، اور فہمِ جهاد و نواقضِ اسلام سے ناآشنائی۔
رؤیت کا دھندلانا
لوگ مقصدِ وجود کو بھول چکے، اور دنیاوی ترقی کو آخرت پر ترجیح دے رہے ہیں۔
استعراض سے مرعوبیت
عملی تاثیر کی بجائے بیانات، فوٹو سیشنز اور مظاہرات کو حقیقت سمجھا جا رہا ہے۔
حل کی تلاش میں سرگردانی
بغیر اصول کے ہر چمکتی چیز کو امید کا چراغ سمجھ لیا گیا ہے۔
دھوکہ دہی کو "مصلحت" کہنا
حق کے ساتھ خیانت کر کے بھی خود کو "مفکر" کہنا رواج پا چکا ہے۔
فقہِ اختلاف کا فقدان
نصیحت کو دشمنی سمجھنا اور اختلاف پر تہمت و طعن کا راستہ اپنانا۔
اس کا نتیجہ؟
احمقوں کی قیادت
رویبضہ کا تمکن
حق کی ذلت
نفاق کا فروغ
داخلی تصادم کا خطرہ
استعمار و دشمن کی تقویت
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ.
حل کیا ہے؟
نفس پرستی کے طاغوت کو پہچاننا
ایسا شخص اپنی بیماری کا شعور نہیں رکھتا، اسے صرف وقت اور فتنہ ہی سمجھا سکتا ہے۔
اخلاقی بلندی پر قائم رہنا
لوگ گالیاں دیں، تم دعا دو۔ تمہارا مخاطب اللہ ہے، نہ کہ ان کے گمراہ دل۔
حق کی دعوت بغیر مداہنت کے
شریعت ہی محور ہے۔ انسان، جماعتیں یا شخصیات نہیں۔
غیبت، طعن اور تہمت سے پرہیز
ہدف افراد نہیں، افکار ہیں۔ اصل میدان شریعت ہے، کردار کشی نہیں۔
سفیہ سے اجتناب
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ.
ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔
"فتنہ جب آتا ہے، تو عقلا بے بس ہو جاتے ہیں اور سفہاء غالب!"
علم کی اشاعت
لوگوں کو فتنوں کے اسباب، علامات، اور سلف کا منہج سمجھایا جائے۔
اصلاحی حکمتِ عملی اختیار کرنا
جذباتی نہیں، اصولی۔ ایسی حکمت جس میں صبر، بصیرت اور حقیقت پسندی ہو۔
تاریخ سے سیکھنا
فتنے آتے ہیں، مخلص باقی رہتے ہیں، جھوٹے بہہ جاتے ہیں۔
مسلمان کا خون ایک جیسا محترم
دنیا کا فنا ہو جانا ایک بےگناہ مسلمان کے خون سے ہلکا ہے ۔ حدیث
منبر پر کھڑے افراد سے خطاب۔
ایمانداری کے ساتھ حق بیان کرو، ورنہ یہ آیت تمہاری دشمن ہے۔
لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَه
عبادت کی استقامت
نماز، ذکر، خیر خواہی، دل جوئی، تقویٰ—یہ سب استقامت و بصیرت کے ستون ہیں۔
آخر میں۔
جو اللہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس پر ہر سمت سے وار ہوتے ہیں، لیکن وہ تھمتا نہیں، کیونکہ وہ اللہ کے لیے اٹھا ہے۔ وہ انبیاء کے قافلے کا وارث ہوتا ہے۔
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ.
اور جو دل آج امت کے حال پر روتا ہے، وہ یاد رکھے: جب تک دلوں سے توحید کا مقام چھین لیا جائے، اور طاغوت نفس کی بادشاہت قائم رہے، یہ زوال جاری رہے گا۔
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ
یاد رکھو
نصرت صرف اللہ کے لیے خالص ایمان پر آتی ہے۔ نہ نعرے کام آئیں گے، نہ جذبات۔ صرف وہ دل فتح پائے گا جس نے دنیا کے بتوں کو پاش پاش کر دیا ہو اور صرف رب کی رضا کو اپنا مقصود بنایا ہو۔
Comments
Post a Comment