Pharaoh's Legacy

 فرعون کی میراث ، تل ابیب کی ایوانوں میں 

تحریر: ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ: مائزہ خان 

اسرائیلی کنیسٹ کے ڈپٹی اسپیکر کا نسل کشی کا اعتراف اور اقوامِ عالم کا مردہ ضمیر

"غزہ کی عورتوں کو ان کے بچوں سے الگ کر دیا جائے... تاکہ مردوں کو اجتماعی طور پر پھانسی دی جا سکے"

یہ جملہ کسی فیس بک پوسٹ کا غصہ نہیں، نہ کسی جنگجو تنظیم کا جذباتی بیان۔
یہ الفاظ اسرائیل کی پارلیمان (کنیسٹ) کے ڈپٹی اسپیکر نسیم واتوری کے ہیں — ایک ایسا شخص جسے ریاستی طاقت، قانونی حیثیت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

یہ محض تشدد نہیں،
یہ محض نسل پرستی نہیں،
یہ کھلی کھلی نسل کشی (Genocide) ہے — جو ریاستی ادارے کے منہ سے نکل کر دنیا کے ضمیر پر لعنت بن چکی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ نے اب ایک خفیہ اور انتہائی خوفناک منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے اور میرے پاس اثبات موجود ہے جو میں نے مختلف ممالک کو دئیے ہیں لیکن وہ خاموش ہے ۔ بس کیا کروں دوستوں میں بھی اکیلی ہوں ۔ میرا فرض اتنا ہے کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ جو باخبر تھے انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا تھا ۔ 
 ایک ایسا منصوبہ جو صرف جنگی جرم نہیں بلکہ مکمل طور پر انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ غزہ میں جاری بربریت کے تحت اسرائیل اب باقاعدہ طور پر نارینہ بچوں اور نوجوان لڑکوں کو ان کی ماؤں سے زبردستی جدا کر رہا ہے۔ یہ صرف قید و حراست کی بات نہیں — بلکہ اس علیحدگی کا مقصد ان بچوں کو یا تو موقع پر گولیاں مار دینا ہے، یا بعد میں اجتماعی پھانسیوں کے ذریعے ختم کر دینا ہے۔

اس منصوبے کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ آنے والے کل میں اگر کوئی نسل فلسطین کے دفاع کے لیے کھڑی ہو سکتی ہے، تو وہ یہی نوجوان نسل ہے۔ انہیں مٹا دیا جائے تو مزاحمت کی جڑ ہی ختم ہو جائے گی۔ یہی طریقہ صدیوں پہلے فرعون نے اختیار کیا تھا جب اس نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کروایا اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیا تاکہ قوم کو ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔

آج وہی وحشیانہ فلسفہ اسرائیل نے اپنایا ہے — جدید ہتھیاروں، ٹیکنالوجی، اور خفیہ تعاون کے ساتھ۔ یہ سب کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، لیکن سب خاموش ہیں۔

اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اسرائیل کو اس میں صرف اندرونی صہیونی اداروں کی مدد حاصل نہیں، بلکہ کچھ بڑے عرب ممالک بھی اس میں شریک جرم ہیں۔ سعودی عرب، جو بظاہر امن اور اسلام کا علمبردار ہے، درپردہ اسرائیل کے ساتھ اس منصوبے میں تعاون کر رہا ہے۔ انٹیلی جنس معلومات، گرفتاریوں کی فہرستیں، اور بعض اوقات عملی سہولت کاری کے ذریعے۔ عرب امارات تو کھلم کھلا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے — معاشی معاہدوں، دفاعی روابط، اور سیاسی بیانات کے ذریعے وہ اسرائیل کو ایک "قانونی ریاست" کے طور پر پیش کر کے فلسطینیوں کی مزاحمت کو جرم بنا رہا ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جب خاموشی، جرم کے مترادف ہے۔ اگر دنیا آج بھی خاموش رہی، اگر میڈیا آج بھی اس کو محض “کانفلکٹ” کہتا رہا، تو کل یہ منصوبے صرف فلسطین تک محدود نہیں رہیں گے۔

یہ نسل کشی کا ایک نیا ماڈل ہے — جہاں ایک قوم کی نئی نسل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے مذہب، نسل، اور مزاحمت کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اس وقت صرف ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی اور خفیہ جنگی مشین ہے — جس کے گندے پَر اب عرب زمینوں میں بھی کھل چکے ہیں۔

 تاریخی پس منظر: نسل کشی صرف ہولوکاسٹ کا نام نہیں

1948
 میں اقوام متحدہ نے
 "Convention on the Prevention and Punishment of the Crime of Genocide"
 منظور کی۔ اس کنوینشن کے مطابق نسل کشی کی تعریف یہ ہے:
"کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر ختم کرنے کے ارادے سے انجام دیے جانے والے افعال"

نسیم واتوری کا بیان اس تعریف کے ہر پہلو پر پورا اترتا ہے:

ایک نسلی گروہ (فلسطینی عرب)

اجتماعی سزا (تمام مردوں کی پھانسی)

انسانی بقا کے بنیادی رشتے (ماں–بچے) کو توڑنا

یہ کوئی ادھورا جملہ یا سیاق و سباق سے باہر بات نہیں — یہ ایک سوچے سمجھے پلان کا اعلان ہے۔

 نسیم واتوری کون ہے؟ اور وہ یہ سب کیوں کہہ رہا ہے؟

نسیم واتوری اسرائیل کے اندر انتہائی دائیں بازو (far-right) کی مذہبی شدت پسند سیاست کا حصہ ہے۔
وہ یہودی قوم پرستی اور سامی بالادستی کے قائل افراد میں شامل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ فلسطینیوں کی موجودگی بذاتِ خود اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ یہی سوچ ہٹلر کی تھی — یہی سوچ نسل کشی کی بنیاد ہے۔

ان کے الفاظ کا مطلب
 "عورتوں کو بچوں سے الگ کرو" — یعنی ماں کی مامتا کا قتل
 "مردوں کو اجتماعی طور پر پھانسی دو" — یعنی ہر بالغ فلسطینی کو دہشتگرد سمجھو اور مار ڈالو
"یہی اسرائیل کی بقا ہے" یعنی خونریزی کو ریاستی اصول بناؤ

عالمی ردعمل؟ ایک مردہ خاموشی

اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، یورپی پارلیمنٹ، وائٹ ہاؤس — سب خاموش!
ایک طرف یوکرین کے لیے لمحہ بہ لمحہ مذمتی بیانات، ہتھیار، اربوں ڈالر کی امداد
اور دوسری طرف غزہ کے بچوں کے لیے جنازے، گڑھے اور قحط!

کیا فلسطینی بچے انسان نہیں؟
کیا ان کی مائیں کم درد رکھتی ہیں؟
کیا ان کی چیخیں کم بلند ہیں؟
نہیں! بلکہ یہ اس دنیا کے ضمیر کی چیخ ہے — جو خود گونگا ہو چکا ہے۔

 یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں یہ انسانیت کا مسئلہ ہے

اگر آج دنیا خاموش رہی،
اگر آپ اور ہم خاموش رہے،
تو کل ہمارے گھروں میں، ہماری بچیوں کے لیے، ایسے ہی بیانات آئیں گے۔

یہ جنگ صرف غزہ کی نہیں، یہ جنگ ماں کی مامتا کی ہے
یہ جنگ بچوں کے بچپن کی ہے
یہ جنگ انسان ہونے کی ہے

 اقوامِ متحدہ فوری طور پر نسیم واتوری پر پابندیاں لگائے

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) ان کے بیان کو نسل کشی کے مقدمے کے تحت سنے

 انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بیان کو نسل کشی کی دلیل کے طور پر استعمال کریں

 ہر باشعور فرد اسے پھیلائے، ترجمہ کرے، ویڈیوز بنائے، چیخ اٹھے

  حقیقت پرمبنی۔ 
اسرائیلی پارلیمان کی آفیشل ریکارڈنگ سے 

اقوامِ متحدہ کنوینشن
 1948 (Genocide Convention)
ICJ
 کے سابقہ فیصلے: روانڈا، بوسنیا
فلسطینی بچوں کی شہادتوں کا ڈیٹا
UN OCHA اور UNICEF

lailaomaralkhurasani@gmail.com 

Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door