The Greatest Shirk

 ووٹ پرستش ، شرک اکبر 

تحریر : ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ: مائزہ خان 

جیسے بتوں کی پوجا توحید نہیں لاتی، ویسے ہی ووٹ کی پرستش خلافت نہیں لاتی ❞

اسلام کی سب سے عظیم بنیاد "توحید" ہے — لا الہ الا اللہ — جو اعلان کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم، کوئی قانون ساز، کوئی حلال و حرام مقرر کرنے والا، کوئی آمرِ اعلیٰ نہیں۔
لیکن آج امت ایک ایسے دہانے پر کھڑی ہے جہاں توحید کے اقرار کے باوجود شرک کے دروازے جمہوریت کے نام پر کھول دیے گئے ہیں۔

 کیا ووٹ عبادت نہیں بن چکا؟
جیسے مشرکین مکہ لات، منات اور عزیٰ کے آگے جھکتے تھے، ویسے ہی آج کے "جمہوری مسلمان" بیلٹ بکس کو تقدیس دے چکے ہیں۔
جیسے وہ اپنے معبودانِ باطل سے حاجتیں مانگتے تھے، آج ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ، وزیراعظم اور اسمبلیوں سے امید باندھتے ہیں۔

مشرکین مکہ اور جدید جمہوری مسلمان: ایک فکری مماثلت

مشرکین مکہ کے شرک کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ اللہ کو مانتے تھے مگر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ وہ لات، منات، عزیٰ جیسے بتوں کو وسیلہ، سفارشی، اور کارساز سمجھتے تھے۔ وہ حاجتیں اللہ سے نہیں، ان بتوں سے مانگتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بت ہمیں اللہ تک پہنچائیں گے۔

آج کے جمہوری مسلمان بھی عملاً یہی کر رہے ہیں، فرق صرف "بت کی شکل" کا ہے —
لات و منات کی جگہ آج "بیلٹ بکس، پارلیمنٹ، وزیراعظم، صدر، جمہوری ادارے" لے چکے ہیں۔

 عقیدہ کی گہرائی میں چھپی ہوئی شرکیہ روش

تب مشرک کہتا تھا: یہ لات ہماری سفارش کرے گا

آج مسلمان کہتا ہے: یہ لیڈر ہماری تقدیر بدلے گا

تب مشرک دعا کرتا تھا: منات ہمیں بارش دے

آج مسلمان کہتا ہے: اسمبلی ہمیں بجٹ دے

تب مشرک قربانی دیتا تھا: بت کے نام پر

آج مسلمان قربانی دیتا ہے۔ جمہوریت بچانے کے لیے ووٹ کے نام پر

 فکری شرک: اصل خطرہ

یہ شرک آج زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اسے دین کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔
بعض لوگ تو "اسلامی جمہوریت" جیسی اصطلاحات تراش کر لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھا چکے ہیں کہ:
 "بیلٹ بکس ہی شریعت لائے گا"
"ووٹ دینا فرض ہے"
"پارلیمنٹ شریعت نافذ کرے گی"

یہ سب اسی طرح کا دھوکہ ہے جیسے شیطان نے قریش کو لات و منات کے بارے میں دیا تھا۔

 ایمان کی اصل: صرف اللہ پر بھروسہ

قرآن بار بار ہمیں دعوت دیتا ہے کہ:
  إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 
"ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں" (الفاتحہ: 5)

تو پھر جب ایک مسلمان اپنے رزق، تحفظ، عزت، تعلیم، انصاف، اور امن کے لیے پارلیمنٹ یا حکومت کو دیکھے گا،
تو یہ آیت محض زبان کی روانی بن جائے گی، دل کی کیفیت نہیں۔

 ووٹ کا بیلٹ بکس، آج کا منات ہے

بیلٹ بکس اب ایک "نئے دور کا بت" بن چکا ہے:

اس کے گرد امیدیں لگائی جاتی ہیں

اس کے فیصلے کو تقدیر سمجھا جاتا ہے

اس کی پرستش میں قبیلے، برادری، نظریے سب قربان ہوتے ہیں

اس پر انگلی رکھ کر لوگ اللہ کے قانون کو معطل کرتے ہیں

ہم سوال کرتے ہیں کہ ۔۔

کیا بیلٹ بکس نے کوئی سودی نظام ختم کیا؟

کیا پارلیمنٹ نے کوئی حدود نافذ کیں؟

کیا جمہوریت نے کسی مظلوم کو انصاف دیا؟

کیا وزیراعظم نے امت کو عزت دی؟

نہیں! اس نے صرف طاغوتی نظام کو مضبوط کیا اور اللہ کے دین کو پیچھے دھکیلا۔

جس طرح مشرکین مکہ کا شرک اللہ کو ناراض کر گیا،
ویسے ہی آج کے ووٹ پرست، جمہوریت پرست، سیکولر پرست مسلمان، اللہ کے دین کے دشمنوں کو اپنا منجی بنا کر اسی شرک کی وادی میں جا گرے ہیں۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم امت کو جھنجھوڑیں،
انہیں بتائیں:
 "لا الہ الا اللہ کا تقاضا ہے کہ حکومت بھی صرف اللہ کی ہو"
"جمہوریت ایک جدید شرک ہے، خلافت ہی اسلام کا نظام ہے"

ووٹ ایک فکری اور نظریاتی عمل ہے — جب آپ کسی جمہوری امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، تو دراصل آپ اس بات پر مہر لگاتے ہیں کہ:
❝ مجھے اللہ کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر حکمرانی منظور ہے ❞

کیا یہ نفیٔ توحید نہیں؟
کیا یہ عصر حاضر کا شرک فی الحاکمیہ نہیں؟

 قرآن کا اعلان
 إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلّہ
"حکم صرف اللہ کا ہے" (سورہ یوسف: 40)

کیا جمہوریت میں حکم اللہ کا ہے؟
نہیں، وہاں "عوام کا قانون، عوام کی مرضی" چلتی ہے اور یہ تو صاف کفر ہے۔

جمہوریت: جدید جاہلیت کا چہرہ

جمہوریت کا مطلب ہے کہ اکثریت جو کہے وہی حق ہے

اسلام کہتا ہے کہ حق وہی ہے جو اللہ کہے، چاہے پوری دنیا اس کے خلاف ہو


یہ دو راستے کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

جمہوریت دراصل وہی نظام ہے جس نے حضرت ابراہیمؑ کو نمرود کے خلاف تنہا کھڑا کیا، حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے نظام کے خلاف اعلانِ ربوبیت پر اُبھارا۔

اگر آج کے مسلمان واقعی محمد ﷺ کے دین پر ہیں، تو پھر جمہوریت کے بت کو توڑنا فرض ہے۔
ورنہ ان کے ایمان میں زہر ہے، جسے "ووٹ" کے نام سے چپ چاپ پلایا جا رہا ہے۔

 خلافت تو ایک عبادت ہے، جمہوریت تو اک بغاوت ہے

خلافت میں۔
قرآن و سنت قانون ہے
حکمران شریعت کا غلام ہے
امت کا قبلہ اللہ ہے

جبکہ جمہوریت میں:
قانون پارلیمنٹ کا ہوتا ہے
حکمران عوام کا غلام ہے
امت کا قبلہ "کرسی" ہے

اب فیصلہ تمہارا ہے 
 مسلمانو! تم کس طرف کھڑے ہو؟

اگر تم کہتے ہو کہ اللہ کافی ہے…
تو پھر تمہارا قانون بھی اللہ کا ہونا چاہیے۔

اگر تمہاری امید اور بھروسہ نظامِ اسلام پر ہے…
تو تم ووٹ کو مسترد کرو، خلافت کی طلب کرو، اور اللہ کے وعدے پر یقین کرو:
  وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ 
"اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، کہ وہ انہیں زمین میں خلافت عطا کرے گا" (سورہ نور: 55)

بت پوجا ہو یا ووٹ پرستی دونوں اللہ کی حاکمیت کے انکار کی شکلیں ہیں۔
اگر واقعی تم "لا الہ الا اللہ" کے وارث ہو 
تو پھر جمہوریت کے طاغوت کو جوتے کی نوک پر رکھو،
اور خلافتِ محمدی ﷺ کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔


Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door