Pakistan on the brink of collapse

 اقوام متحدہ کے ہاتھوں پاکستان کا استعمال شروع 

تحریر۔ ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ ۔ مائزہ خان 

اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی میں پاکستان کو نائب چیئرمین مقرر کرنا اور مستقبل میں انکا استعمال 
اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی میں پاکستان کو نائب چیئرمین مقرر کیا جانا بظاہر ایک بین الاقوامی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حکومت اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی جیسے حساس اور عالمی سطح کے مسئلے پر ایک اعلیٰ سطحی کردار دیا گیا ہے۔ لیکن اگر اس خبر کو صرف ایک وقتی کامیابی یا نشست کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اس کے پیچھے موجود عالمی سیاسی پس منظر، اقوام متحدہ کے کردار، اور دہشت گردی کی اصطلاح کے مفہوم کو مدنظر رکھ کر پرکھا جائے، تو معاملہ محض اعزاز سے بہت آگے نکل کر خطرے کی گھنٹی بن جاتا ہے۔

دہشت گردی کی اصطلاح کی آج جو تعریف عالمی اداروں، خصوصاً اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں نے اپنائی ہے، وہ ایک خاص نظریاتی زاویے سے تیار کی گئی ہے۔ اس زاویے میں اسلام پسند تنظیموں، شریعت کا مطالبہ کرنے والے نوجوانوں، خلافت کے داعیوں، اور استعمار مخالف مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ چاہے وہ فلسطین کے مظلوم نوجوان ہوں، کشمیر کے نہتے مظاہرین، افغانستان کے دفاع کرنے والے قبائلی لوگ، یا شام و عراق میں قبضے کے خلاف لڑنے والے مسلمان، ان سب کو "دہشت گرد" کا لیبل دے کر ان کے خلاف جنگ کو "امن کے قیام کی کوشش" بنا دیا گیا ہے۔

ایسے میں اگر پاکستان جیسے ملک کو اس کمیٹی میں نائب سربراہ بنا دیا جائے، تو کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کو بھی اب اسی بیانیے کا محافظ اور مجری بننے کی ذمہ داری دی جا رہی ہے؟ اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کی سربراہی یا نائب سربراہی محض ایک اعزاز نہیں بلکہ ایک ذمہ داری اور فریم ورک کا حصہ ہے جس کے تحت اس عہدے پر بیٹھنے والے ممالک کو مغربی ایجنڈے کے مطابق پالیسیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ اب چونکہ مغرب کے نزدیک ہر وہ مسلمان جو اسلامی نظام کے قیام، شریعت کے نفاذ یا ظلم کے خلاف مزاحمت کی بات کرتا ہے، وہ دہشت گرد ہے، تو اس کمیٹی میں پاکستان کی موجودگی دراصل ایک طرف عالمی طاقتوں کی نرمی اور دوسرے طرف دباؤ کی شکل ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر بھی ایسے عناصر کو کچلنے میں عالمی بیانیے کی حمایت کرے۔

اس تقرری کے بعد پاکستان پر یہ بھی لازم آئے گا کہ وہ اقوام متحدہ کو تسلی دے کہ وہ اپنے اندرون ملک مذہبی یا سیاسی تنظیموں، مدارس، اور دینی تحریکوں پر گرفت سخت کر رہا ہے۔ خاص طور پر ان حلقوں پر جو "اسلامی طرز حکومت" یا "خلافت" کی بات کرتے ہیں۔ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف پرعزم ہے، اور بدقسمتی سے یہی "انتہا پسندی" آج کل صرف اور صرف اسلام پسندی، سلفیت، یا شریعت کی طرف رجحان کو ہی کہا جاتا ہے۔

یہ تقرری اس وقت اور بھی معنی خیز ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں جب امت مسلمہ پر ظلم ہو رہا تھا، جب ڈرون حملے ہو رہے تھے، جب فلسطینیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، جب بھارتی فوج کشمیر میں معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر رہی تھی، اور جب فرانس و یورپ میں توہین رسالت کے واقعات ہو رہے تھے، تب اقوام متحدہ کی یہی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں۔ بلکہ انہی کی سرپرستی میں نام نہاد قوانین اور بیانیے تیار کیے گئے جن کے تحت مزاحمت کو بغاوت، دفاع کو دہشت، اور دین کو فتنہ بنا دیا گیا۔

پاکستان اگر اس وقت اس کرسی پر بیٹھے گا، تو لازماً اسے وہی مؤقف اپنانا پڑے گا جس پر اقوام متحدہ اصرار کرتی ہے۔ یہ مؤقف اسلامی مزاحمت سے لاتعلقی، جہاد کی ہر تعبیر سے اجتناب، شریعت کے نظام سے دوری، اور امت مسلمہ کے جذبات کی نفی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ریاستی سطح پر اگر اس بیانیے کو اپنایا جائے گا تو اس کا مطلب صرف عالمی اداروں کی حمایت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنی نسل، دین، اور فکر سے دستبرداری ہو گا۔

اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کبھی بھی مسلم دنیا کی آزادی، خودمختاری، یا شرعی نظام کے قیام کے حق میں نہیں رہے۔ ان کے تمام تر پروگرام اور پالیسیز اس بات کے گرد گھومتی ہیں کہ مسلم ممالک مغربی لبرل نظام کو قبول کریں، دین کو محض نجی معاملہ سمجھیں، اور ہر قسم کی اسلامی مزاحمت کو دبایا جائے۔ اگر پاکستان کو اس عہدے پر بٹھایا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے کا مرحلہ آ چکا ہے۔

یہ بھی خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس تقرری کے بعد پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان داخلی قوتوں کو نشانہ بنائیں گے جو اقوام متحدہ کے بیانیے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ شاید اب مدارس، جماعتیں، اصلاحی تحریکیں، اور نوجوانوں کی دینی تربیت کے ادارے عالمی ایجنڈے کی زد میں آ جائیں۔ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر پھر سے وہی کہانیاں دہرائی جائیں گی جو 2001 کے بعد پاکستان نے دیکھی ہیں، جن میں لاکھوں معصوم جانوں کا خون بہا اور ملک اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہوا۔

اب وقت ہے کہ اس تقرری پر خوشی منانے کے بجائے سنجیدہ غور کیا جائے کہ کیا ہم اس راہ پر بڑھ رہے ہیں جس نے عراق، شام، لیبیا، اور افغانستان جیسے مسلم ممالک کو کھنڈر بنایا؟ کیا ہم بھی انہی کی صف میں کھڑے ہونے جا رہے ہیں؟ کیا ہماری شناخت صرف اس لیے قابل قبول ہے کہ ہم مغرب کی ہاں میں ہاں ملائیں اور اپنے اصولوں کو چھوڑ دیں؟

مسلمانوں کو اب اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی اس وقت تک بامعنی نہیں ہو سکتی جب تک وہ دین کے تقاضوں کو ترجیح نہ دے، اور یہ نمائندگی اس وقت نقصان دہ بن جاتی ہے جب وہ دشمن کے بیانیے کو اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کا ذریعہ بن جائے۔

پاکستان کو اس موقع پر چاہیے کہ وہ اس عہدے کو محض عالمی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے، بلکہ اگر ممکن ہو تو عالمی پلیٹ فارم پر امت مسلمہ کا مؤقف اجاگر کرے، اسلام اور شریعت کے حوالے سے دی جانے والی غلط تعبیرات کو چیلنج کرے، اور مغرب کے اس دہرا معیار کو بے نقاب کرے جو مظلوم کو دہشت گرد اور ظالم کو محافظ بناتا ہے۔

لیکن اگر پاکستان اس موقع کو استعمال کرنے کے بجائے صرف تقرری کا جشن منائے گا اور عالمی بیانیے کے ساتھ بہہ جائے گا، تو یہ قوم کے لیے، دین کے لیے، اور امت مسلمہ کے مستقبل کے  لیے ایک عظیم المیہ ہو گا۔
For Question Or Contact 
lailaomaralkhurasani@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door