Horses and religion
گھوڑے دین و عظمت کی علامت ۔ ابتداء کیسے ہوئی
گھوڑے: عرب تہذیب، دین، اور عظمت کی علامت
گھوڑا عربوں کی زندگی میں محض ایک سواری یا جنگ کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ یہ ان کی تہذیب، غیرت، شجاعت، اور دین داری کا استعارہ بن چکا تھا۔ زمانہ قدیم سے لے کر اسلامی دور تک، اور نبیوں کے زمانے سے صحابہ کرام کے دور تک، گھوڑے کے ساتھ جو تعلق رہا وہ علم، حکمت، جمال اور وفا کا تعلق تھا۔
ابو ہلال عسکری نے اپنی معروف کتاب الاوائل میں ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے گھوڑے پر سوار ہونے والے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اس وقت تک گھوڑے جنگلی جانوروں کی طرح آزاد اور بے قابو تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ان کو قابو میں کیا، ان سے انس پیدا کیا، اور پھر اپنے بچوں کو بھی ان کے ساتھ رہنے، سوار ہونے، ان کی تربیت اور حفاظت کا سلیقہ سکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ عرب اس علم کے وارث بنے اور اس پر فخر کرنے لگے۔
عرب سرداروں کے اقوال بھی گھوڑوں کی عزت اور عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ بنو عامر کے ایک سردار نے کہا کہ جب تم گھوڑے کی عزت کرتے ہو تو دراصل تم اپنی عزت کر رہے ہوتے ہو۔ ایک شاعر نے کہا کہ میرے پاس کوئی دولت نہیں سوائے ان گھوڑوں کے جنہیں میں گنتا ہوں۔ اگر تمہارے پاس سونا چاندی ہو اور میرے پاس ایک بہترین گھوڑا، تو میں اس گھوڑے کو ہی اپنا سرمایہ کہوں گا۔ کیونکہ وہ میرا سہارا ہے، میری جنگ کا ہتھیار ہے، میری عزت اور شان کا نشان ہے۔
اسی طرح ایک بزرگ نے کہا کہ اپنے لوگوں سے کہا کہ گھوڑے کی عزت کرو کیونکہ وہ سب سے آگے جاتے ہیں۔ وہ تمہیں اس وقت بھی فائدہ دیتے ہیں جب تمہارے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ ان پر لکھا گیا کلام اگر کوئی غور سے پڑھے تو معلوم ہوگا کہ گھوڑے صرف جنگ و جدال کے نہیں بلکہ شعور اور حکمت کے نشان ہیں۔
ادب و شاعری میں گھوڑے کو عظمت کا تاج پہنایا گیا۔ الجاحظ جیسا عظیم ادیب لکھتا ہے کہ کوئی قوم گھوڑوں کے بارے میں عربوں سے زیادہ علم نہیں رکھتی۔ اسی لیے ہر زبان میں جب کسی عمدہ گھوڑے کا ذکر آتا ہے تو کہا جاتا ہے "عرب گھوڑا"۔ کوئی نہیں کہتا ہندی گھوڑا یا رومی گھوڑا یا ایرانی گھوڑا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کا اس علم پر کیسا حق اور گہرا اثر تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث بھی گھوڑے کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔ ایک صحیح حدیث میں فرمایا گیا کہ قیامت تک گھوڑے کی پیشانی سے نیکی بندھی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں یا بھلائی کے کسی مقصد کے لیے گھوڑا پالتا ہے، وہ ہر لمحہ اجر میں شریک ہوتا ہے۔ پیشانی کی لٹ جو گھوڑے کی شان و شوکت کی علامت ہوتی ہے، عربی میں اسے برکت کی علامت کہا گیا۔
ابو سلمہ کی روایت سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو بے وجہ تکلیف دینے اور ان سے ایسے کام لینے سے منع فرمایا جو ان کے شایانِ شان نہ ہوں جیسے ان پر بوجھ لادنا صرف تجارت کے لیے۔ اس کے برعکس اسلام نے ان کے ساتھ حسن سلوک، ان کی خوراک، آرام اور تربیت کا پورا خیال رکھنے کا حکم دیا۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھوڑے کھاؤ نہیں بلکہ انہیں پالو کیونکہ ان کے پیٹ خزانے ہیں اور ان کی پیٹھیں حفاظت کی علامت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھوڑے تمہیں دشمنوں سے بچا سکتے ہیں اور ان کے ذریعے تم عزت و طاقت حاصل کر سکتے ہو۔
گھوڑے عربی شعرا کے کلام میں بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ مالک بن الریب نے مرتے وقت کہا کہ اسے اپنی تلوار اور نیزے کے سوا کوئی یاد نہیں، اس کا محبوب گھوڑے کی لگام تھامے کھڑا ہے اور گھوڑا موت کے وقت بھی اس کا وفادار ہے۔ اس منظر میں وفا، شجاعت، جدائی، اور وفات کا المیہ ایک ہی لمحے میں سمٹ آتا ہے۔
گھوڑا صرف ایک جانور نہیں بلکہ تاریخ، عزت، محبت، اور قربانی کا استعارہ ہے۔ جو قوم گھوڑے سے محبت کرتی ہے وہ بہادری، غیرت، اور وفاداری کے جذبے سے خالی نہیں ہو سکتی۔ گھوڑے کی ہمسائیگی وہ شرف ہے جسے الفاظ میں نہیں سمویا جا سکتا۔ جو گھوڑے سے سچی محبت کرتا ہے وہ کبھی بزدل نہیں ہو سکتا، نہ ہی بے وفا۔
اللہ ہمیں بھی گھوڑوں کی خوبیوں، صبر، طاقت، جلال، وفا اور حسن کو سمجھنے اور ان صفات کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی توفیق دے۔
Comments
Post a Comment