They have neither forgotten nor will they forgive.

 نہ بھولیں ہیں نہ بخشیں گے

تحریر ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ مائزہ خان بنوری 

۔2002 میں گجرات میں جو کچھ ہوا، وہ محض فسادات نہیں تھے، بلکہ
 وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقلیتوں کے خلاف ریاستی سطح پر ظلم و ستم کی انتہا تھی۔ ہزاروں مسلمان نوجوانوں کو بےدریغ قتل کیا گیا، سینکڑوں خواتین کی عصمت دری کی گئی، اور پورے خاندان مٹا دیے گئے۔ گھروں کو جلا دیا گیا، دکانوں کو تباہ کیا گیا، اور مسجدوں کو گرا کر ہندو جھنڈے لہرا دیے گئے۔

یہ سب ایک ایسی ریاست میں ہوا جہاں اُس وقت نریندر مودی چیف منسٹر تھا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ پولیس کئی دنوں تک خاموش تماشائی بنی رہی؟ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ ہر وہ مقام جہاں مسلمان آباد تھے، وہی سب سے زیادہ نشانہ بنے؟ اور کیا یہ محض اتفاق تھا کہ قاتلوں کے چہرے پہچانے گئے، لیکن گرفتاریاں نہ ہوئیں؟

نہیں۔ یہ سب کچھ صرف خاموشی سے نہیں ہوا، بلکہ واضح شواہد موجود ہیں کہ گجرات کی ریاستی مشینری یا تو خود اس میں شامل تھی یا آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔

مودی کے بارے میں جو بیانیہ پھیلایا گیا کہ وہ اس سب پر افسردہ تھا، وہ صرف میڈیا کا ایک چہرہ تھا۔ درحقیقت، خود ان کی پارٹی کے کئی سینئر لوگ، بیوروکریٹس، اور پولیس افسران نے بعد میں گواہی دی کہ مودی نے اس فساد کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اُس نے فساد کو "عوامی غصہ" قرار دے کر اسے جائز بنانے کی کوشش کی۔

مگر انسانوں کا قتل کبھی غصے کی بنیاد پر جائز نہیں ہو سکتا۔
گجرات کے کئی شہروں میں، حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے گئے۔ بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ ایسے منظم انداز سے ہوا جیسے فوجی کاروائی ہو۔ کیا یہ سب بغیر حکومت کی رضا مندی کے ممکن تھا؟

مودی نے بعد میں صرف دکھاوے کے چند بیانات دیے۔ افسوس تو اس نے کیا، لیکن صرف کیمروں کے سامنے۔ زمینی طور پر نہ اس نے مسلمانوں کے لیے کوئی بڑے اقدامات کیے، نہ ہی مجرموں کو فوری سزائیں دلائیں۔

حتیٰ کہ جنسی زیادتی کا شکار خواتین نے خود آ کر عدالتوں میں گواہی دی کہ ان کے ساتھ کس طرح سرعام ظلم ہوا، کیسے انہیں زنجیروں میں باندھ کر ننگا گھمایا گیا۔ کئی کیسز ایسے تھے جن میں مودی کے قریبی افراد کے نام آئے۔ لیکن یا تو وہ بری ہو گئے یا ان پر کارروائی ہی نہ ہوئی۔

سپریم کورٹ کی SIT نے جو رپورٹ دی، وہ بھی مکمل شفاف نہ تھی۔ کئی انسانی حقوق کے ادارے اس پر اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔ عالمی ادارے، جیسے Human Rights Watch اور Amnesty International نے اس بات کو تسلیم کیا کہ گجرات میں ریاستی مشینری نے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت میں ناکامی نہیں، بلکہ مجرمانہ غفلت برتی۔

آج بھی ہزاروں متاثرہ خاندان ہیں جو نہ اپنے گھروں کو واپس جا سکے، نہ ہی انہیں انصاف ملا۔ ان کے لیے وہ وقت آج بھی زندہ ہے، ان کی عورتوں کی چیخیں آج بھی دیواروں سے ٹکرا رہی ہیں، اور ان کے بچوں کی لاشیں آج بھی انصاف مانگ رہی ہیں۔

مودی بعد میں وزیراعظم تو بن گیا، لیکن وہ داغ جو اس کے دامن پر لگا ہے، وہ کبھی نہیں دھل سکتا۔ وہ اگر واقعی بےقصور ہوتا تو کم از کم ان مظلوموں سے کھل کر معافی مانگتا، مجرموں کو خود سزا دلواتا، اور ان خاندانوں کی آبادکاری کرتا جو آج بھی پناہ گزینوں کی طرح جی رہے ہیں۔

لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
وہ تو آج بھی اپنے سیاسی کیرئیر میں اسی نفرت انگیزی کو کامیابی کا زینہ بنائے ہوئے ہے۔ اقلیتیں آج بھی بھارت میں غیرمحفوظ ہیں۔ آج بھی گجرات کی گلیوں میں خوف ہے۔ آج بھی مسلمانوں کو یاد ہے کہ جب ان کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت تار تار ہو رہی تھی، تو مودی اقتدار کی کرسی پر مطمئن بیٹھا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door