فتنے کی آگ
گھریلو زندگیوں کو چاٹتی فتنے کی آگ
میری یہ تحریر نہایت حساس اور سنگین ہے، اور معاشرے میں روز بروز اس کی شدت اور تباہ کاری بڑھتی جارہی ہے۔ ان دنوں جو مشورے اور سوالات علمائے کرام اور مبلغین تک بار بار پہنچ رہے ہیں، ان میں سے ایک نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن فتنے کا تعلق ایسے مردوں سے ہے جو بظاہر نیکوکار اور صالح کہلاتے ہیں، لیکن وہ عورتوں کے فتنے میں گرفتار ہو کر نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو برباد کر بیٹھتے ہیں بلکہ اپنے گھروں، بیویوں، اور بچوں کی خوشیوں اور امن و سکون کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
ان واقعات کو سن کر دل دہل جاتا ہے۔ تصور کیجیے کہ ایک شخص جو قرآن کا حافظ ہو، یا دین کی دعوت دینے والا ہو، یا کم از کم عوام کی نظر میں دیندار اور باکردار سمجھا جاتا ہو، لیکن شادی کے بعد اس کی حقیقت کھلتی ہے کہ وہ عورتوں کے پیچھے لگا ہوا ہے، غیر محرم عورتوں سے نرم لہجے میں بات چیت کرتا ہے، ان سے دل لگی کرتا ہے، ناجائز تعلقات بناتا ہے، دن بھر ان کی تصویریں، پیغامات، اور حرکات کے پیچھے لگا رہتا ہے، اور مسلسل گناہوں میں ڈوبا رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی عبادتیں ماند پڑ جاتی ہیں، دل میں نور کی جگہ تاریکی چھا جاتی ہے، چہرہ پژمردہ ہو جاتا ہے اور روح بے چین۔
المیہ تو یہ ہے کہ ایسے افراد کئی بار رسوا بھی ہوتے ہیں، اللہ ان کا پردہ فاش کرتا ہے، مگر اس کے باوجود انہیں ہوش نہیں آتا۔ یہ لوگ نہ تو جائز اور شرعی طریقے سے دوسری شادی کرتے ہیں، اور نہ ہی اللہ کے خوف سے اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گھر کا امن تباہ ہو جاتا ہے، بیوی کے دل میں شک اور عدم اعتماد گھر کر لیتا ہے، اور یوں ایک پاکیزہ اور محبت بھری زندگی دھیرے دھیرے سرد جنگ اور نفرت میں بدل جاتی ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر خطرناک اثر یہ ہوتا ہے کہ بیوی کے دل میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ دینداری محض ایک دکھاوا ہے، ایک نقاب ہے، جس کے پیچھے کئی دھوکے چھپے ہوتے ہیں۔ پھر یہ سوچ اس کے دل میں جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاید بے دین آدمی بہتر ہوتا ہے کیونکہ کم از کم وہ منافق تو نہیں۔ اور یوں نیک مردوں کا چہرہ اس کی نظر میں مشکوک ہو جاتا ہے، اور ازدواجی رشتہ شک، سازش، اور خوف کے ماحول میں گھٹنے لگتا ہے۔
کتنا افسوسناک ہے کہ ایک عورت یہ منظر دیکھے کہ اس کا شوہر جب تنہائی میں ہوتا ہے تو وہ اللہ کی حرمتوں کو پامال کرتا ہے، چاہے وہ دنیا کے سامنے کیسے ہی نیک نظر آتا ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو، کوئی بھی دلیل ہو، گناہ کو جواز نہیں بنایا جا سکتا، اور جو شخص ان راستوں میں قدم رکھتا ہے، وہ اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ ایک بہت بڑا سماجی، دینی، اور اخلاقی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے معاشرے میں سنجیدہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فتنے کی روک تھام کے لیے ہمیں اپنے نوجوانوں کی تربیت پر توجہ دینی ہو گی، انہیں اللہ کے خوف سے بھرپور تعلیم دینی ہوگی، نکاح سے پہلے مکمل چھان بین کرنی ہو گی، اور کسی بھی لڑکے کو صرف ظاہری دین داری کی بنیاد پر داماد نہیں بنایا جا سکتا، جب تک کہ اس کی عملی زندگی، اس کا کردار، اس کے تعلقات، اس کا ماحول، اور اس کی آزمائشیں اچھی طرح نہ پرکھی جائیں۔
اور خاص طور پر والدین اور سرپرستوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کا رشتہ ایسے مردوں کو نہ دیں جو عورتوں کی فتنے میں مبتلا ہوں، جب تک کہ وہ سچے دل سے توبہ نہ کر چکے ہوں اور ان کی توبہ کا ثبوت عمل سے ظاہر نہ ہو۔ کیونکہ یہ ایک ایسا زہریلا مرض ہے جو پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اور اگر وقت پر اس کا علاج نہ کیا جائے تو نسلوں کو بگاڑ دیتا ہے۔
اور نہ صرف مردوں کے لیے، بلکہ عورتوں کے لیے بھی یہی اصول ہے، کوئی بھی مرد ایسی عورت سے نکاح نہ کرے جو غیر مردوں میں دلچسپی رکھتی ہو، اپنی آواز، اپنے لباس، اور اپنے برتاؤ سے ان کی توجہ کھینچتی ہو۔ کیونکہ ایسا فتنہ ازدواجی زندگی کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
آمین۔
Comments
Post a Comment