فتنہ نسوانیت اسلام کے شکل میں

فتنہ نسوانیت 

نام نہاد حجابی خواتین کی شکل میں 

تحریر: ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ: مائزہ خان بنوری 

 تعلیم و تربیت کا میدان آج ایک فکری اور تہذیبی معرکہ بن چکا ہے۔ یہ محض ایک تعلیمی شعبہ نہیں رہا بلکہ امت کے عروج و زوال کا فیصلہ کن محاذ بن گیا ہے۔ اس معرکے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو بصیرت، صبر، تیاری اور وقت شناسی کے ساتھ میدان میں اترے۔ یہ معرکہ اس قدر اہم اور سرنوشت ساز ہے کہ اگر اس میں فتح حاصل ہو جائے تو باقی تمام میدانوں میں کامیابی ایک فطری نتیجہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر اس میں شکست ہو جائے تو باقی سب کوششیں بے بنیاد اور بے روح ہو کر رہ جاتی ہیں

آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں اسلام پر حملے صرف تلوار اور توپ سے نہیں بلکہ فکر، تہذیب، تعلیم اور ثقافت کے راستے کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ حملے اب نہایت جرات اور بے باکی کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ ایسے حملے جو نئی نسل کو اپنے دین، اپنے تشخص، اپنی تاریخ اور اپنے اصل سے کاٹ دینے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔ انہیں ایسی تربیت دی جا رہی ہے جس کا مقصد انہیں کمزور، مضمحل، اپنی شناخت سے بے خبر، اور غیروں کے لیے تابع فرمان بنانا ہے۔ انہیں ایسا بنایا جا رہا ہے کہ وہ قیادت کے اہل نہ رہیں، نہ ان میں غیرت ہو، نہ حمیت، نہ شعور، نہ خود اعتمادی

ان تمام ہتھیاروں میں سب سے مہلک ہتھیار نسوانیت کی تحریک ہے۔ یہ تحریک دراصل عورتوں کے حقوق کے نام پر معاشرتی ڈھانچے کو توڑنے، خاندان کی بنیادوں کو ہلانے، اور مرد کی فطری قیادت و قوامیت کو مجروح کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔ اس تحریک کا ہدف صرف یہ نہیں کہ عورتوں کو آزادی دی جائے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مردوں کو ان کی فطری اور شرعی ذمہ داریوں سے محروم کر دیا جائے۔ ان کی حیثیت کو مشکوک بنایا جائے۔ ان کے کردار کو کمزور کر دیا جائے۔ ان پر عورت کو مسلط کر دیا جائے۔ اور سب کچھ قانون، حقوق اور برابری جیسے دلکش نعروں کے پردے میں ہو ۔رہا ہے
جیسا کہ ۔۔۔
 واقعہ 7 اکتوبر کے بعد پاکستان میں سیو غزہ ملین مارچ کے نام سے ایک اچھا سوچ ابھرا لیکن قریب ترین وقت
میں اس تحریک سے مردانگی کو چیلینج کرنے کی بو آگئی ۔ انہوں نے آواز اچھا اٹھایا لیکن انکی خاتون راہنما نے ایک بڑے سیاسی جماعت کے مردوں کو چیلینج کیا اور لوگوں کے دلوں سے مردانگی کا اصل مقام فلسطین کے معاملے میں ختم کیا۔  
اسکے علاوہ کینیڈا انگلینڈ امریکا میں قیام فرما کچھ نام نہاد شیخات جو خود کو معلمات و مربیات کہتی ہے نے مردانہ علم و ادب کو چیلینج کیا اور اپنے مربین نیٹو اور حواریوں کے سامنے آزادانہ طور پر تبلیغات شروع کی تاکہ لوگ واہ واہ کریں کہ دیکھو فلاں عورت انگریزوں کو دعوت دے رہی ہے واہ کتنی بہادر ہے ۔ 
نہیں ۔ نہیں ۔
دعوت کا یہ طریقہ نہیں دعوت کا طریقہ وہ تھا جس دعوت کی وجہ سے کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ھجرت کرنے پر مجبور کیا ۔ 
دعوت کا طریقہ وہ ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر میمونہ تاحیات نظر بندی تک پہنچ گئی ۔ 
یہ اسلام یہ دین یہ عقیدہ اتنا لاوارث نہیں کہ یہ مردوں کے ہاتھ سے نکل کر نام نہاد عورتوں اور لڑکیوں کے ہاتھ آجائیں ۔ 
عورت میں اگر طاغوت کے سامنا کرنے کی طاقت ہو تو ڈاکٹر میمونہ اور زینت بن جاتی ہے جس میں صلاحیت ہوکر بھی اپنی حکومت اسلامی تناظر میں مردوں پر قائم نہیں کرتی بلکہ صرف اپنا فرض نبھا کر واپس ہوتی ہے ۔ 
اور جب عورت میں شھرت و حکومت کی ھوس ہو تو وہ کچھ نام نہاد سکالرز مغربی تہذیب میں بیٹھی خواتین ہوتی ہے جو اپنی مکاری سے لوگوں کے دلوں سے مردوں کا مقام مٹانا چاھتی ہے اور مردوں کو اسکے اصل مقام جو اسلام نے عطا کی ہے وہ ختم کرنے پر تلی ہیں ۔ 
اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب اس نسوانیت سکالرز فتنے کی تحریک نے اپنے لیے "اسلامی چولا" بھی تیار کر لیا ہے۔ ایسی خواتین سامنے آئی ہیں جو بظاہر اسلامی لباس میں، اسلامی اصطلاحات کے ساتھ، اور دینی حوالے دے کر وہی زہر گھول رہی ہیں جو خالص مغربی نسوانیت کا ایجنڈا ہے۔ یہ خواتین اصل میں وہ زہریلا تیر ہیں جو خاموشی سے نئی نسل کے ایمان اور فطرت کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جو بظاہر دین کی خیرخواہی کے دعوے کرتے ہیں مگر درحقیقت دین کی اساسات پر حملہ کر رہے ہیں۔ ان کے کلام میں نرم لہجہ ہوتا ہے مگر ان کی باتوں میں زہر کی تاثیر ہوتی ہے

نسوانی فکر کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ یہ رجولیت کو، یعنی مردانگی، قیادت، غیرت، اور ذمہ داری کے جذبے کو نشانہ بناتی ہے۔ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ مرد اپنی قیادت سے دستبردار ہو جائے۔ وہ قوام بننے سے گھبرائے۔ وہ عورت کی اطاعت کو برابری کا نام دے دے۔ وہ اپنی حیثیت پر شرمندگی محسوس کرے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ مرد مرد رہتا ہے، نہ عورت عورت۔ نہ خاندان محفوظ رہتا ہے، نہ نسل سنورتی ہے۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک بے سمت، بے شعور، اور مغلوب امت ابھرتی ہے جو اپنے دشمنوں کے سامنے جھکنے پر فخر محسوس کرتی ہے

اگر ہم واقعی امت کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم و تربیت کے میدان کو اس فکری حملے سے محفوظ کرنا ہوگا۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اس نسوانی فکر کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے۔ اس کے فریب کو واضح کیا جائے۔ اس کے شبہات کا جواب دیا جائے۔ نئی نسل کو اس زہر سے بچایا جائے۔ خاص طور پر مسلمان بچیوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ امہات المؤمنین اور صحابیات کو اپنا آئیڈیل سمجھیں نہ کہ وہ کردار جنہیں مغرب نے آزادی کے نام پر پیش کیا ہے۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ عزت، وقار، کامیابی اور ترقی صرف اسی راہ میں ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی ہے

تعلیم و تربیت کی حفاظت صرف معلومات فراہم کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسی فکری دیوار اٹھانے سے ہوتی ہے جو ہر باطل یلغار کو روک سکے۔ ایک ایسا نظام تربیت قائم کیا جائے جو بچوں اور بچیوں دونوں کو دین سے محبت کرنا سکھائے۔ انہیں ایمان کے ساتھ جینا اور اسی پر مرنا سکھائے۔ انہیں حق بات کہنے کا حوصلہ دے۔ انہیں یہ شعور دے کہ عزت صرف اللہ کے دین میں ہے، اور ذلت صرف اس کے سوا ہر راستے میں

رجولیت کو اس کے اصل مقام پر واپس لانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں مرد کو اس کی قیادت کا شعور دینا ہے۔ اسے یہ یقین دلانا ہے کہ وہ محافظ ہے، وہ قوام ہے، وہ ذمہ دار ہے۔ اور یہ منصب صرف فخر کی بات نہیں بلکہ قربانی اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے دل و دماغ کو دین کے نور سے روشن کرے، اپنی شخصیت کو سنوارے، اور قیادت کے لیے خود کو تیار کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ دنیا کے بدلتے فتنوں سے نہ ڈرے بلکہ دین کی شریعت کو اپنا ڈھال بنائے اور امت کے قافلے کا رہبر بنے

اگر ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو ہمارے سامنے ایک ایسی نسل کھڑی ہو جائے گی جو نہ اپنے دشمن کو پہچانتی ہوگی، نہ اپنے مقصد کو۔ وہ ایسی نسل ہوگی جس کی قیادت عورتوں کے ہاتھ میں ہوگی، جنہیں مغرب نے اپنے مخصوص نظریات کے تحت تربیت دی ہوگی۔ وہ نسل دشمنوں کی طرف امید سے دیکھے گی، ان کی تہذیب کو اپنائے گی، ان کی غلامی کو قبول کرے گی، اور دین کی غیرت سے خالی ہوگی۔ اس وقت واپسی کا راستہ بھی بند ہو جائے گا

لہذا ہمیں آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں پاکدامنی، تقویٰ اور دین کی امانت کی حامل بنیں، اور ہمارے بیٹے علم، قیادت، غیرت اور دین کی نصرت کے لیے تیار ہوں، تو ہمیں تعلیم و تربیت کے تمام راستے شریعت کی بنیاد پر ازسرنو تعمیر کرنے ہوں گے۔ ہمیں ہر اس فکر کا مقابلہ کرنا ہوگا جو امت کو گمراہی کی طرف لے جائے۔ اور ہمیں ایسا نظام تیار کرنا ہوگا جو صرف علم نہ دے بلکہ شعور، غیرت، دین داری، قیادت اور قربانی کا جذبہ پیدا کرے

اسی میں امت کی بقاء ہے، اسی میں اس کی فتح ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو آنے والے وقت میں اسلام کو عزت، شوکت اور غلبہ دے گا

اے اللہ میں نے پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ یا ربی ۔۔۔ 

برائے رابطہ 
maizakhanbenori@gmail.com 
واٹساپ چینل 


Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door