تنازعات کا حل
تنازعات کا حل
آزمائشوں کی حکمت اور نجات
تحریر ۔۔ ڈاکٹر لیلی حمدان
اردو ترجمہ ۔۔مائزہ خان بنوری
تنازعات کا حل، آزمائشوں کی حکمت اور نجات کا راستہ
دنیا ہمیشہ سے ایک کشمکش کا میدان رہی ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں پنپنے والے خیالات، احساسات، مفادات اور نظریات جب ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو تنازعات جنم لیتے ہیں۔ یہ اختلافات کبھی ذاتی سطح پر ہوتے ہیں، کبھی قومی، کبھی فکری اور بعض اوقات مذہبی یا تہذیبی۔
ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے انسان نے بہت سے طریقے آزمائے۔ دلیل، مکالمہ، نصیحت، قانون، طاقت، حتیٰ کہ جنگیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ کوئی ایک طریقہ مستقل طور پر کارگر ثابت نہیں ہوا۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، کوئی نئی آزمائش دروازے پر آ جاتی ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک چیز جو سب سے زیادہ نظر انداز کی گئی، وہ ہے "وقت"۔
وقت ہی وہ پیمانہ ہے جو ہر چیز کو چھان کر رکھ دیتا ہے۔ وقت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر سچ اور جھوٹ الگ ہو جاتے ہیں، نیتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں، جذبات دم توڑ دیتے ہیں اور حقیقت پوری آب و تاب سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانا لوگ تنازعات کے بیچ اکثر خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وقت خود فیصلہ کرے گا۔
وہ شخص جو اپنے نظریے پر پختہ یقین رکھتا ہو، اسے دلیل سے قائل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے اگر سینکڑوں دلائل رکھ دیے جائیں، تب بھی وہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ کیونکہ اس کے دل میں ایک ایسا چراغ جل رہا ہوتا ہے جو صرف اسے دکھائی دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرتی سطح پر جب کوئی شخص اپنی فکر، اپنے مسلک، یا کسی نظریاتی پہلو سے مکمل وابستگی کا اظہار کرتا ہے، تو وہ دوسروں کی بات سننے سے گریز کرتا ہے۔ اس کے نزدیک باقی سب لاعلم یا گمراہ ہوتے ہیں۔ ایسے فرد سے مکالمہ کرنا، یا اسے کسی اور زاویہ نگاہ سے سوچنے پر آمادہ کرنا، ایک مشکل ترین عمل ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کے تمام واقعات ان کی ذات کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ ہر حادثے اور ہر نعمت کو اپنی قسمت کا عکس سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی تجزیہ اہم ہوتا ہے، نہ کوئی عبرت۔ ان کی ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، اور ان کا زاویہ نگاہ صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔
جذبے میں بہنے والا انسان کبھی دوسروں کے دکھ کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے درد، اپنی خواہش، اور اپنی تمناؤں میں گم ہوتا ہے۔ اس کا ہر عمل ردِ عمل پر مبنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ وقتی طور پر بہت پرجوش دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقتاً وہ اپنی اندرونی کمزوریوں کے اسیر ہوتے ہیں۔
اس منظرنامے میں ایک تیسرا کردار "رحم دل عالم" کا ہے۔ وہ شخص جو علم رکھتا ہے، فہم رکھتا ہے، اور دل میں درد بھی۔ وہ مستقبل کی ہواؤں کا رخ پہچان لیتا ہے، خطرات کی بو سونگھ لیتا ہے، اور اندیشوں کو قبل از وقت بھانپ لیتا ہے۔
ایسا عالم جب اپنی زبان کھولتا ہے تو وہ لوگوں کو خبردار کرتا ہے، انہیں راستہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ گمراہی سے بچ جائیں، وہ چاہتے ہیں کہ امت بکھرنے سے بچ جائے، مگر اس کی آواز اکثر صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔
لوگ یا تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں، یا اسے سازشی سمجھتے ہیں، یا پھر اسے ماضی کا باسی کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ عالم، درد دل کے ساتھ اپنی بات کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ اور جب وقت وہی باتیں سچ کر دیتا ہے تو وہ آنکھیں بند کر کے خاموشی سے آنسو بہا دیتا ہے۔
یہ دنیا ابتلاء کا مقام ہے۔ یہاں ہر انسان کو کسی نہ کسی آزمائش سے گزرنا ہے۔ کبھی رزق کا امتحان، کبھی صحت کا، کبھی رشتوں کا، کبھی عزت کا، کبھی ایمان کا۔
مگر قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ آزمائش محض سزا نہیں، بلکہ تطہیر ہے۔ انسان کو صیقل کرنے کا عمل ہے۔ آزمائش دراصل انسان کی روح کو چمکانے کے لیے آتی ہے، تاکہ وہ
آزمائشیں نہ صرف ہماری اندرونی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں، بلکہ ہمیں اپنے رب کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جب انسان سب دروازے بند ہوتے دیکھتا ہے، تو صرف ایک دروازہ کھلا محسوس ہوتا ہے، اور وہ دروازہ رب کا ہوتا ہے۔
نجات صرف تقویٰ میں ہے۔ تقویٰ محض ظاہری عبادات کا نام نہیں، بلکہ دل کی حالت کا نام ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو انسان کو ہر فیصلے سے پہلے ٹھٹکنے پر مجبور کرتی ہے۔ جو اسے سچ اور جھوٹ میں فرق بتاتی ہے۔ جو اسے اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس دلاتی ہے۔
تقویٰ وہ اندرونی چراغ ہے جو انسان کو تنہائی میں بھی گناہ سے روک دیتا ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو آزمائش میں صبر عطا کرتی ہے، اور نعمت میں شکر۔
دنیا میں ہر وہ شخص جو بچنا چاہتا ہے، سنورنا چاہتا ہے، محفوظ رہنا چاہتا ہے، اسے تقویٰ کا دامن تھامنا ہو گا۔ کیونکہ وقت کے بدلتے طوفانوں میں اگر کوئی چیز انسان کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے، تو وہ تقویٰ ہے۔
یہ وقت فتنوں کا ہے۔ سچ جھوٹ سے مشتبہ ہو چکا ہے۔ لوگ اپنی آوازوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ مگر ان سب کے بیچ اگر کوئی چیز باقی ہے، تو وہ خاموشی، وقت اور تقویٰ ہے۔
وقت ہی ہر تنازعے کا بہترین منصف ہے۔ نصیحت کرنے والوں کو اپنی نیت درست رکھنی چاہیے، اور سننے والوں کو اپنی دل کی کھڑکیاں کھولنی چاہئیں۔ آزمائش کو سزا نہ سمجھو، بلکہ ایک موقع سمجھو۔ اور نجات کی تلاش میں صرف اللہ کا راستہ چنو، کیونکہ وہی واحد پناہ ہے۔
Comments
Post a Comment