عورتوں کو لاحق سب سے خطرناک مرض

 عورتوں کو لاحق سب سے خطرناک مرض

تحریر ؛ڈاکٹر لیلی حمدان 
اردو ترجمہ؛ مائزہ خان بنوری

ذو الحجہ 23، 1446 ہجری

عورتوں کو لاحق سب سے خطرناک مرض

آج کل سوشل میڈیا پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں کچھ خواتین طلاق لینے کے بعد خوشی سے جھومتی ہیں، اس لمحے کو جشن کی طرح مناتی ہیں، اور مرد سے "آزادی" پر فخر کا اظہار کرتی ہیں—یہ سب کچھ عزتِ نفس، شرافتِ خصومت، اور حیاء کو روندتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ یہ محض فرد کی آزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ منظرنامہ اس خستہ حالی کو ظاہر کرتا ہے جہاں جدید نسوانیت (فیمینزم) نے خاندان کے ادارے کو کھوکھلا کر دیا ہے، اور عورت کے ذہن و فکر کو اس کی اصل سے جدا کر دیا ہے۔

طلاق کا وقت دراصل ایک عورت کے کردار، اس کی دینداری اور تقویٰ کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ اب تو اس مقدس بندھن کے اختتام کو بھی کھیل تماشہ بنا دیا گیا ہے۔

میں نے جب مغربی نظریات کا مطالعہ کیا، خصوصاً ان میں پیش کی جانے والی فیمینسٹ سوچ کا، تو مجھے ان کی بنیاد میں ایک ہی چیز دکھائی دی: خالص انانیت اور حد درجہ خود غرضی۔ اس سوچ میں عورت کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کو سب کچھ سمجھے، اپنی خواہشات کو ہی مقصدِ حیات جانے، اور ہر وہ رشتہ، فرض، یا نرمی جو اسے خاندان، شوہر یا بچوں کے ساتھ جوڑتی ہے، اسے بوجھ سمجھ کر ترک کر دے۔ یہ صرف فکری انحراف نہیں بلکہ انسانی فطرت سے بغاوت ہے۔

یہ نظریہ عورت کو اس کے اصل مقام — ماں، بیٹی، بیوی، بہن، خالہ، پھوپھی، دادی، نانی — سے کاٹ کر ایک خود غرض، ضدی اور بے رحم انسان میں تبدیل کر دیتا ہے، جو صرف "میری آزادی"، "میری مرضی" اور "میرا حق" کے گرد گھومتی ہے۔ ایسی عورت نہ فرائض کو سمجھتی ہے، نہ قربانی کا جذبہ رکھتی ہے، نہ شفقت اور محبت کی پہچان باقی رکھتی ہے۔

طلاق کی وجوہات پر غور کریں، تو اکثر اوقات ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ مرد کے سخت رویّے یا زیادتی کا نہیں بلکہ عورت کے دل میں مرد کے خلاف ایک ضد، ایک جنگ چھیڑنے کا جذبہ ہوتا ہے — گویا وہ شوہر سے مقابلے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔ اس کی نظر میں مرد جتنا جھکے، اتنا ہی کمزور اور قابلِ نفرت بنتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں عورت اپنی فطرت — محبت، ایثار، اور قربانی — کو کھو بیٹھتی ہے۔

فیمینزم کی تحریک اکثر "حقوق" کے مطالبے سے شروع ہوتی ہے، مگر انجام کار وہ عورت کو مرد کی دشمن بنا کر، خاندان کے ڈھانچے کو توڑ کر، عورت کو مرد سے بدظن کر کے ختم ہوتی ہے۔ نتیجہ؟ ایک سخت دل، خودغرض، بغاوت پر آمادہ عورت جو محبت، وفا، اور قربانی کے جذبے کو پیچھے چھوڑ چکی ہوتی ہے۔

عورت کی فطرت اللہ نے شفقت، نرمی، سخاوت اور قربانی پر رکھی ہے۔ یہی صفات ماں کے کردار کو عظیم بناتی ہیں۔ لیکن جب عورت ان صفات سے عاری ہو جائے، جب وہ اپنے بچوں سے بے نیاز ہو جائے، اور جب وہ اپنے قریبی رشتوں کو بوجھ سمجھے—تو سمجھ لیں وہ اپنی نسوانیت کھو چکی ہے، چاہے وہ بظاہر کتنا بھی "خوبصورت" بننے کی کوشش کرے۔

یہی وہ خطرناک مرض ہے جو عورت کو اس کی فطری خوبصورتی سے محروم کر دیتا ہے—اور سب سے خوفناک بات یہ کہ عورت خود کو بیمار سمجھتی ہی نہیں! وہ سمجھتی ہے کہ وہ "حق" پر ہے، حالانکہ وہ ظلم، طغیان، اور بغاوت کی راہ پر چل پڑی ہے۔ یہ روحانی سرطان آہستہ آہستہ اس کی فطرت کو کھوکھلا کرتا ہے اور وہ محسوس بھی نہیں کر پاتی۔

ایسے مرض کا علاج صرف تعلیم یا قوانین سے نہیں بلکہ بچپن سے تربیت سے ممکن ہے۔ بچیوں کو قرآن، حدیث، سیرتِ صحابیات، اور حیاء و حیا داری پر تربیت دینا ہو گی۔ انہیں سکھانا ہو گا کہ عورت کی عظمت خدمت، قربانی، اور محبت میں ہے — نہ کہ بغاوت، خودغرضی اور ضد میں۔

ہر باپ، ہر شوہر پر فرض ہے کہ وہ اپنے گھر کو فیمینزم کے اثرات سے محفوظ رکھے، ان دروازوں کو بند کرے جہاں سے یہ فتنہ داخل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب عورت سے حیاء اور اللہ کا خوف رخصت ہو جاتا ہے، تو پھر کوئی دیوار باقی نہیں رہتی۔


OUR WHATSAPP CHANNEL

Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل

Front camera tomb door