سور کے اجزاء
اور کے اجزاء , ایک تحقیقی جائزہ ، مسلمانوں کے لیے یہ جاننا کیوں ضروری ہے ۔۔
تحریر۔ ڈاکٹر لیلی حمدان
اردو ترجمہ۔ مائزہ خان بنوری
آج کے جدید دور میں، جب عالمی تجارت کی سرحدیں ختم ہو چکی ہیں اور مصنوعات کا تبادلہ دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے، مسلمانوں کے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ وہ جو اشیاء روزمرہ زندگی میں استعمال کر رہے ہیں، ان کی تیاری میں کون سے اجزاء شامل کیے گئے ہیں۔
سور کا گوشت اور مغربی معاشرہ:
یورپ اور امریکہ سمیت مغرب کے اکثر ممالک میں گوشت کے طور پر "سور" کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں سور کے پالنے کے باقاعدہ تجارتی فارم قائم ہیں۔ صرف فرانس میں ہی سور پالنے والے فارموں کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان ممالک میں سور کو پالنا اس لیے بھی رائج ہے کہ یہ جانور تیزی سے بڑھتا ہے، کم جگہ اور خوراک پر پرورش پاتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی چربی (Fat) بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔
سور کی چربی اور اس کا صنعتی استعمال:
سور کی چربی، جسے انگریزی میں Lard کہتے ہیں، عام طور پر کھانے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس کی کثرت کی وجہ سے یورپ میں طویل عرصے تک یہ ایک مسئلہ بنی رہی کہ اسے ضائع کیسے کیا جائے۔ ابتدائی طور پر اس چربی کو جلا دیا جاتا تھا یا زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف صنعتی استعمالات پر تحقیق کی گئی۔ اس چربی سے صابن، موم، شیمپو، کریمیں، اور دیگر مصنوعات بنائی جانے لگیں۔
سور کی چربی اور مسلمانوں کا ردعمل:
جب ابتدائی مصنوعات کے لیبل پر "Pig Fat" یا "Lard" لکھا جاتا تھا تو بہت سے مسلمان ممالک میں ان مصنوعات پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق، سور نہ صرف حرام ہے بلکہ نجس بھی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی کسی بھی شکل میں کھپت یا استعمال جائز نہیں۔
برصغیر میں سور کی چربی سے متعلق تاریخی واقعہ:
1857 کی مشہور "جنگِ آزادی" کے پس منظر میں ایک اہم سبب وہ گولیاں تھیں جن پر چربی کی تہہ چڑھائی گئی تھی۔ ان گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے سپاہیوں کو انہیں دانتوں سے کھولنا پڑتا تھا۔ جب یہ خبر پھیلی کہ ان گولیوں پر سور یا گائے کی چربی لگائی گئی ہے، تو مسلمان اور ہندو دونوں نے اس عمل پر سخت اعتراض کیا۔ مسلمانوں کے لیے سور حرام تھا اور ہندوؤں کے لیے گائے مقدس۔ اس وجہ سے انہوں نے انگریزوں کی اطاعت سے انکار کر دیا، جو بعد میں ایک بڑی بغاوت کی شکل اختیار کر گیا۔
"ای کوڈز" اور اجزاء کی خفیہ شناخت:
1970 کے بعد، جب مختلف کمپنیوں نے دیکھا کہ ان کی مصنوعات پر پابندیاں لگ رہی ہیں اور انہیں مالی نقصان ہو رہا ہے، تو انہوں نے ایک نیا طریقہ اپنایا۔ اجزاء کو عام الفاظ میں لکھنے کے بجائے، انہیں کوڈز کی شکل میں پیش کیا جانے لگا، جسے "E-Codes" یا "E-Numbers" کہا جاتا ہے۔ ان کوڈز کا مقصد یہ تھا کہ مصنوعات میں شامل اجزاء کے بارے میں صرف متعلقہ اداروں یا ماہرین کو معلومات ہو، جبکہ عام صارف لاعلم رہے۔
یہ کوڈز نہ صرف خوراک کی اشیاء بلکہ دانتوں کی پیسٹ، چاکلیٹ، ببل گم، ٹافیاں، دوائیں، بسکٹ، ملٹی وٹامنز، جلد کی کریمیں، اور دیگر روزمرہ استعمال کی مصنوعات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بہت سے مسلمان ممالک میں چونکہ لیبل کی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی، اس لیے ان مصنوعات کا استعمال عام ہے، اور صارفین کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس چیز کا استعمال کر رہے ہیں۔
معاشرتی اثرات اور فکری لمحہ:
جدید سائنسی تحقیقات اور اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس خوراک کا انسان مسلسل استعمال کرتا ہے، اس کے اثرات صرف جسمانی نہیں بلکہ اخلاقی اور ذہنی سطح پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ سور ایک ایسا جانور ہے جو فطرتاً گندگی، بے حیائی، اور بے شرمی سے پہچانا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے جانور کے اجزاء کا مسلسل استعمال انسانی اخلاقیات پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
آج مسلم معاشروں میں جنسی بے راہ روی، جذباتی عدم توازن، بے رحمی، اور فحاشی کا جو رجحان بڑھتا جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ایسی خوراک بھی ہو سکتی ہے جس میں خفیہ طور پر سور کے اجزاء شامل ہوں۔
Comments
Post a Comment