Cut off paths
کاٹ دی گئی راہیں
تحریر: ڈاکٹر لیلی حمدان
اردو ترجمہ : مائزہ خان
اسلامی قانون، جب اس کی بنیادیں صحیح نیت، اخلاص، اور ہدایت پر قائم ہوں، تو یہ نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی میں سکون لاتا ہے بلکہ ایک پوری امت کو استقامت، عدل اور راہِ مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ یہ قانون، محض احکام کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک الٰہی نظام ہے جو انتخاب، امتحان، اور قربانی کے ہر موڑ پر انسان کے لیے توازن اور سمت متعین کرتا ہے۔
جب کوئی شخص ان اصولوں سے مخلص ہو جاتا ہے، تو وہ ان راہوں کو تلاش کرتا ہے جہاں سچائی اور اطاعت کا نور چمکتا ہو، اور وہ ہر ایسے ہمسفر سے قریب ہو جاتا ہے جو دینِ حق کی وفاداری میں استقامت دکھاتا ہے — چاہے وہ کسی دور افتادہ ملک میں رہتا ہو، کسی اور زبان میں بولتا ہو، یا سخت حالات کا سامنا کر رہا ہو۔
لیکن آج، یہ راستہ کاٹ دیا گیا ہے۔
اور وہ جنہوں نے اس راہ کو کاٹا ہے، وہ دشمن نہیں تھے جو باہر سے آئے، بلکہ وہ خواہشات، تعصبات، دنیا پرستی، خود غرضی اور جھوٹی وفاداریاں تھیں جنہوں نے ہماری راہوں میں کانٹے بو دیے۔
راہِ حق کے دشمن پوشیدہ قاتل ہیں۔
خواہشات اور تعصبات وہ شعلے ہیں جو انسان کو اللہ کی رضا کے بجائے اپنے نفس، قوم، قبیلے، جماعت یا رہنما کی اطاعت میں جھونک دیتے ہیں۔ یہ دین کے نام پر دین سے غداری ہے، اور روح کی بغاوت کو "دینی تشخص" کا جامہ پہنانا ہے۔
اندھی وفاداریاں اور دشمنیاں وہ زنجیریں ہیں جو انسان کو سچ بولنے، سچ ماننے، اور حق کے سامنے جھکنے سے روکتی ہیں۔
ایسے لوگ جو شخصیات، گروہوں یا تنظیموں سے اس حد تک وابستہ ہو جاتے ہیں کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی بات بھی ان کے خلاف گوارا نہیں کرتے، یہ فکری بت پرستی ہے۔
جب رزق کی تنگی اور دنیا کا خوف انسان کو نیکی کے حکم دینے اور برائی سے روکنے سے روک دیتا ہے، تو وہ شعور مرتا ہے جو امت کو زندہ رکھتا ہے۔
بعض لوگ دین کی خدمت کو بھی تکبر، مقابلہ اور نمود و نمائش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، یوں اخلاص کا چہرہ داغدار ہو جاتا ہے۔
ان کی نیتوں میں اللہ نہیں بلکہ اپنی بڑائی، اپنی آواز، اپنی صفائی اور اپنی چمک ہوتی ہے۔
فتنہ پرستی، جھوٹ، سچ کو چھپانا، اور ظالموں کے ساتھ سازباز کرنا وہ زہر ہے جو امت کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے ۔ اللہ کی نشانیاں، کائنات کا نظام، اپنے دل کی کیفیت اور اپنے اعمال پر غور نہ کرنا انسان کو غفلت کی کھائی میں دھکیل دیتا ہے۔
جو دل مسلسل چھوٹے گناہوں پر بھی بے حس ہو جائے، وہ کبیرہ گناہوں کی طرف بھی بے خوفی سے قدم بڑھاتا ہے۔
ایمانداروں کی دیانت کا ناجائز فائدہ اٹھانا، ان پر ظلم کرنا اور ان کی سچائی کو کمزوری سمجھنا اس امت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔
جب کوئی شخص اللہ کے دشمنوں سے محبت کرنے لگے اور مومنین کے خلاف زبان درازی کرے، تو وہ درحقیقت دین کا دروازہ اپنے اوپر بند کر دیتا ہے۔
جسم کو لذت دینے والی زندگی روح کو مردہ کر دیتی ہے۔
جب عقل خاموش ہو جائے اور دل خالی ہو جائے، تو نہ ہدایت باقی رہتی ہے نہ جذبہ۔
جب دین کو ناپ تول کی مشق، مناظروں، فلسفہ سازی اور پیچیدہ بحثوں کا میدان بنا دیا جائے، تو سچائی کی سادہ روشنی بھی چھپ جاتی ہے۔
یہ تمام رکاوٹیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ کی راہ آسان نہیں، اور اس راہ میں صرف وہی لوگ باقی رہتے ہیں جو اخلاص سے لبریز ہوتے ہیں۔
اگر امت چاہتی ہے کہ وہ پھر سے عزت پائے، تو اسے اپنے رب کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا — اس کی مکمل اطاعت، اور کسی بھی غیر شرعی سمجھوتے سے پرہیز کرنا ہوگا۔
جو قوم اپنے ایمان پر مجتمع ہو جائے، اور جس کا دل خواہشات سے پاک ہو جائے، اس پر فتح نازل ہونا حق بن جاتا ہے۔
یہ وقت اپنے دلوں کو جھاڑنے، نیتوں کو درست کرنے، اور حق کے قافلے میں شامل ہونے کا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم فتنوں کے کانٹوں کو پہچانیں، ان سے بچیں، اور وہی راستہ اپنائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو دکھایا — اخلاص، استقامت اور قربانی کا۔
کیونکہ اگر ہم نہ جاگے تو: نہ راہ باقی رہے گی، نہ قافلہ... صرف خاک میں بکھرے نقش پا

Comments
Post a Comment