Front camera tomb door

 فرنٹ کیمرہ ، قبر کا دروازہ 

تحریر: ڈاکٹر لیلی حمدان 

فرنٹ کیمرہ  ، قبر کا دروازہ 
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہماری بیٹیاں، ہماری بہنیں، وہ جو کبھی  ماں کی آغوش میں قرآن کے الفاظ سنا کرتی تھیں، اور جو اپنے باپ کے سامنے شرم سے نظریں جھکا لیا کرتی تھیں، آج وہی بیٹیاں پردے کی چادر اتار کر فالوورز کی گنتی کے پیچھے دوڑ رہی ہیں۔ کبھی جن ہاتھوں میں دسترخوان بچھتا تھا، آج وہی ہاتھ ویڈیو بنانے کے لیے موبائل تھامے رہتے ہیں۔ جسے کبھی قرآن حفظ کرنا تھا، وہ اب ناچنے کے نئے زاویے سیکھ رہی ہے۔ اور جسے کبھی ماں بن کر نسلوں کو سنوارنا تھا، وہ اب شہرت کے لیے اپنی عزت کی نیلامی کرنے لگی ہے۔

اسلام آباد کی ایک لڑکی، ثنا، جو ٹک ٹاک پر مشہور ہونے کی کوشش کر رہی تھی، ایک دن گولی کا نشانہ بن گئی۔ آج وہ نہ کسی ویڈیو میں مسکرا سکتی ہے، نہ کوئی گانا گا سکتی ہے، نہ ہی کوئی کمنٹ اس کی پوسٹ پر آئے گا۔ اس کی زندگی ختم ہوگئی، ایک ویڈیو کی قیمت پر۔ اور وہ اکیلی نہیں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ شاید آخری بھی نہ ہو۔ کئی لڑکیاں، جنہیں شہرت کے خمار نے بہکایا، یا تو قتل ہو گئیں یا خودکشی پر مجبور ہوئیں۔ ان میں سے کئی کے جسم کے ساتھ ان کی عزت بھی دفن ہو گئی۔ اور پھر لوگ بس ایک لمحے کے لیے افسوس کرتے ہیں، ویڈیو پر چند رونے والے ایموجیز ڈالتے ہیں، اور اگلے دن کسی نئی لڑکی کی ویڈیو پر ہنسنے لگتے ہیں۔

یہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر اس انجام کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ خود؟ کیا اس کا ماحول؟ کیا وہ لوگ جو اس کی ویڈیوز پر تعریف کے تبصرے کرتے تھے، جو اس کی گندگی پر واہ واہ کرتے تھے؟ یا وہ والدین جو لاپرواہ تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب مل کر اس بربادی کے شریک ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ہم وہ امت ہیں جس نے اس فتنے کو پھیلتے ہوئے خاموشی سے دیکھا۔

ٹک ٹاک صرف ایک ایپ نہیں، یہ ایک ایسا راستہ بن چکا ہے جو لڑکی کو اس کے کمرے سے نکال کر دنیا کے ہر گندے ذہن کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ جہاں وہ کپڑوں سے محروم ہو کر "ٹرینڈنگ" میں آتی ہے، لیکن عزت کی صف سے نکل جاتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ کامیابی ہے، مگر حقیقت میں یہ موت کی سیڑھی ہے۔ یہ سیڑھی اسے نہ صرف دینی طور پر گرا دیتی ہے، بلکہ وہ معاشرتی اعتبار سے بھی ایک مردہ وجود بن جاتی ہے، جسے لوگ صرف "مزے" کے لیے دیکھتے ہیں، عزت کے لیے نہیں۔

یہ صرف باہر نکلنے والی لڑکیوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہ فتنہ اب گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ باپردہ، باحجاب، نیک سیرت لڑکیاں جب سوشل میڈیا پر اپنی عمر کی ہم جنسوں کو لاکھوں فالوورز کے ساتھ دیکھتی ہیں، تو ان کے دل میں بھی حسرت جاگتی ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ "آخر میں کیا کمی ہے؟"۔ وہ اپنی ماں سے چھپ کر موبائل کھولتی ہیں، ایک نئی آئی ڈی بناتی ہیں، اور پہلی ویڈیو پوسٹ کرنے سے پہلے کانپتی ہیں۔ مگر ایک بار جب تبصرے آنا شروع ہوتے ہیں، تعریفیں اور دل کے ایموجیز ملنے لگتے ہیں، تو ان کے قدم بھی اسی راستے پر پڑ جاتے ہیں جس کا انجام گمنامی، ذلت یا قبر ہوتا ہے۔

اسلام نے عورت کو سب سے عظیم مقام دیا ہے۔ حیا، پردہ، شرم، وقار — یہ سب صرف لفظ نہیں ہیں، یہ اس تاج کے ہیرے ہیں جو عورت کے سر پر رکھا گیا ہے۔ جب وہ ان ہیرے کو پھینک دیتی ہے، تو وہ خود کو ایک اندھیرے جنگل میں دھکیل دیتی ہے جہاں نہ کوئی راہبر ہوتا ہے، نہ محافظ۔ اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے، تو وہ درندے ہوتے ہیں جو اس کی عزت کا گوشت نوچنے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس وقت بحث نہیں کرنی کہ جسے گولی ماری گئی وہ صحیح تھی یا غلط، یا جس نے خودکشی کی وہ کمزور تھی یا مظلوم۔ ہمیں اصل حقیقت پر نظر رکھنی ہے: جب ہم اللہ کے احکامات کو روندتے ہیں، جب ہم دین کی حدود کو مذاق بناتے ہیں، تو پھر نہ عزت بچتی ہے نہ جان۔ اور پھر ایک دن قبر کھلتی ہے اور دنیا بند ہو جاتی ہے، لیکن اس گناہ کا اثر معاشرے میں باقی رہتا ہے۔

آج ہر مسلمان لڑکی کو، چاہے وہ دیہات میں ہو یا شہر میں، اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے: کیا میری حیا میرے لیے کافی نہیں؟ کیا اللہ کی رضا فالوورز سے کم ہے؟ کیا جنت کی خوشبو کسی لائک سے کم دلکش ہے؟ وہ لڑکی جس نے اپنی چادر سنبھال کر گلی پار کی تھی، آج اس کا نام فرشتوں کے دفتر میں عزت والوں میں لکھا گیا ہے۔ اور وہ جو چادر اتار کر ویڈیو بنانے لگی، اس کا نام شاید دنیا کے سرچ بار میں ہو، مگر آسمان کے دربار میں مٹ چکا ہے۔

ہمیں ایک نئی بیداری کی ضرورت ہے، ایک نئی آواز، جو ہر ماں، ہر باپ، ہر بہن، ہر بھائی کے دل کو جھنجھوڑے۔ جو لڑکیوں کو بتائے کہ تمھاری عزت و حیا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ کہ تمھاری خاموشی، تمھارا پردہ، تمھاری نماز، تمھارا قرآن، تمھارا مقام وہ ہے جو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ کہ تمھیں مشہور ہونے کے لیے ننگا ہونا نہیں، بلکہ اللہ کے سامنے جھکنا ہے۔

اور ہمیں حکومتوں سے، معاشرتی اداروں سے، علماء سے، اور ہر فرد سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی اس فحاشی، گندگی اور شیطانی ترغیب کو بند کرے۔ ٹک ٹاک جیسی ایپس کو بند کیا جائے، یا ان پر سخت پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ ہماری نسلوں کو برباد کر رہی ہیں، ان کے دل سے شرم نکال رہی ہیں، اور عزت کے معنی بدل رہی ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم اس فتنہ کے خلاف کھڑے ہوں، کہ ہم اپنی بہنوں کو صرف  شئیر اور لائک  کی دنیا سے نکال کر ان کے رب کی رضا کی طرف لے کر آئیں۔ تاکہ جب وہ مر جائیں، تو ان کے جنازے پر شرمندگی کا سایہ نہ ہو، بلکہ رحمت کے فرشتے ان کا استقبال کریں۔

یہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ مگر عزت کے ساتھ مرنے والی کی شان کبھی نہیں مٹے گی۔ اور شہرت کے بدلے عزت بیچنے والی کا انجام کبھی خوشی کا نہیں ہو سکتا۔ یہی وقت ہے جاگنے کا، یہی وقت ہے بچانے کا۔ ورنہ کل ہمیں اپنے بچوں کے سامنے جواب دینا ہوگا کہ ہم نے کیا کیا تھا؟ اور اس وقت کوئی ویڈیو یا فالوور ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

Horses and religion

پاسداران اسرائیل